یادگار امام کی یادیں، یار امام کے بارے میں:

امام کے اصولوں پر بھروسہ، لازمی ہے: آیت اللہ ہاشمی

امام سے آیت الله ہاشمی کے والہانہ عشق؛ جس طرح ایک بیٹا اپنے شفیق اور مہربان باپ سے کرتا ہے۔

ID: 46371 | Date: 2017/01/28

امام سے آیت الله ہاشمی کے والہانہ عشق؛ جس طرح ایک بیٹا اپنے شفیق اور مہربان باپ سے کرتا ہے۔


یادگار امام نے" ایران اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن " کی عمومی نشست میں آیت اللہ ہاشمی کی بعض اہم خصوصیات، اخلاص جیسے اور شجاعت، فراخ دلی، حسن ظن اور دوسری بہت سی خوبیوں کا تذکرہ کیا۔


جماران کے مطابق، سید حسن خمینی نے آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کو موجودہ صدی کی اہم سیاسی شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا: عصری تاریخ  کے حجاب نے ان کی شخصیت کے تمام پہلووں کو سماج میں صحیح طرح واضح ہونے نہیں دیا۔ اس میں شک نہیں کہ گزشتہ نصف صدی میں امام خمینی کے علاوہ، تمام سیاسی میدانوں میں ہاشمی کی مانند کوئی دوسری شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔


یادگار امام نے واضح کیا: ہاشمی تقریبا 1962 سے امام خمینی کے وزیر خارجہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ آْیت اللہ ہاشمی اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے جو عام طور پر دوسروں میں بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہاشمی جہاں اپنے موقف کے اظہار میں جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے تھے وہیں غلطی کی صورت میں اس کا ازالہ کرنے کےلئے اپنے موقف سے پیچھے بھی ہٹ جاتے تھے۔


انہوں نے مزید کہا: ان کے دوسرے سبق آموز اوصاف میں سے ایک، اخلاص تھا؛ وہ کبھی بھی دکھاوے سے کام نہیں لیتے تھے، خود ان کے بقول: " میں اس لئے امام کے دلدادہ ہوگئے تھے کیونکہ امام کے اندر ریاکاری نامی کوئی مادہ نظر نہیں آتا تھا" ہم سینتیس سال تک ان کے پڑوسی تھے اور بہر صورت  ان کے ہاں آنا جانا ہوتا تاہم کبھی بھی وہ اپنی حالات زندگی سے متعلق تکلف سے کام نہیں لیتے تھے اور ان کی نجی زندگی کے بارے میں آگاہی پر ہرگز کتراتے نہیں تھے۔


انہوں نے کہا: ان کی دوسری خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ " نیلسن منڈیلا " کے معروف جملے: " معاف کرو لیکن بھولو مت " کے حقیقی مصداق تھے۔ ضرورت پڑھنے پر وہ ماضی میں سیاسی  نظریات کے حامل افراد کے ماضی کو نظر انداز کرتے تھے تاہم وہ بھول چوک سے کام نہیں لیتے تھے، وہ بہت فراخ دلی کے مالک تھے۔


ان کی اچھی صفات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ سخت محنت اور لگن اور جانفشانی کے ساتھ کام کرتے تھے اور عمر کے آخری مرحلے تک انہوں نے اس بات کا ثبوت دیا۔


سید حسن نے کہا: ان کی دوسری صفات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ملک کی پیشرفت اور ترقی میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ بارہا اپنی گفتگو میں ملک کے اندر روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی بات کرتے تھے اور روزگار فراہم کرنے کےلئے سرمایہ کاری کی ضرورت پر تاکید کرتے تھے۔ واضح سی بات ہےکہ سرمایہ کاری کے خود اپنے شرائط و ضوابط ہیں۔


میری نظر میں ان کا خیال تھا کہ دیندار لوگوں کے اقتدار میں آنے کے بعد، انہیں چاہئے کہ سماج کو بہترین طریقے سے مینجمینٹ کرے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں خود ان کی شخصیت کے ساتھ ان کے نظرئے کو بھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔


آیت اللہ خمینی نے مزید کہا: وہ خدا پر بہت حسن ظن رکھتے تھے اور جو سبق مجھے ان کی زندگی سے سیکھنے کو ملا وہ یہ تھا کہ انہیں عوامی فہم و فراست پر پورا اعتماد تھا اسی لئے بہت سے مواقع پر زور دیتے ہوئے کہتے تھے: " لوگوں کی فہم و فراست پر اعتماد کرو "  اور ان کے تشییع جنازہ میں توقع سے زیادہ لوگوں کی شرکت یا حالیہ انتخابات میں ہاشمی کے حق میں پڑھنے والے کثیر ووٹ، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں۔


انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ہمیں صحیح طرح عمل پیرا ہو کر لوگوں کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے کہا: لوگ ہمیں ایک سیاسی راہمنا کے طور پر پہچاننے سے پہلے ایک سچے انسان کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں آقای ہاشمی مکتب امام کے بہترین شاگرد تھے۔



یادگار امام نے آیت الله ہاشمی کے نقش قدم پر چلنے کو صحیح راستہ قرار دیتے ہوئے کہا: شاید خدا، عوام اور ہدف پر ایمان نے انہیں ذہنی سکون اور قلبی اطمینان فراہم کیا تھا، وہ غضبناک مزاج اور جلد ناراض ہونے والے نہیں تھے۔


سید حسن خمینی نے کہا: ہاشمی کی دیگر بہت سی خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ہمیشہ قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے تھے۔ میں نے اس حوالے سے پہلی بار اپنے والد گرامی [سید احمد خمینی مرحوم] سے بھی سنا اور عملی طور پر بھی اس کا مشاہدہ کیا۔ 2014 کے انتخابات میں جب انہیں نا اہل قرار دیا گیا تو میں نے انہیں نفسیاتی اعتبار سے پر سکون پایا، گویا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئے ہوں۔


یادگار امام نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: آقای ہاشمی کی سبق آموز خصوصیات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ اچھی طرح اپنی قدر و قیمت سے واقف تھے اسی لئے وہ کبھی بھی سستی قیمت پر بکنے والے نہیں تھے۔


ان کی دیگر  بارز خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ دوسروں کے نازیبا کلمات سے ڈرتے نہیں تھے، یقینا جو سیاستداں دوسروں کے نازیبا کلمات سے خائف ہوتا ہے وہ اسی مقدار میں اپنی قیمت کھو بیھٹتا ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب کے پہلے عشرے میں انقلاب مخالف عناصر، دوسرے عشرے میں بائیں بازو اور تیسرے عشرے میں دائیں بازو کی جانب سے حملے کا نشانہ بنتے رہے تاہم وہ کبھی بھی دوسروں کی ملامت اور بدکلامی سے خائف ہو کر تسلیم نہیں ہوئے۔


انہوں نے امام سے آیت الله ہاشمی کے والہانہ عشق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہاشمی امام سے اس طرح محبت کرتے تھے جس طرح ایک بیٹا اپنے شفیق اور مہربان باپ سے کرتا ہے تاہم ان کی محبت کا یہ والہانہ انداز بہت گہرا تھا اور وہ امام کو اپنے لئے ایک مکتب فکر کے عنوان سے دیکھتے تھے کہ جس کے اصولوں پر بھروسہ کرنا ضروری تھا اور انہی اصولوں کے تناظر میں آج ہمیں فکری راستہ ہموار کرتے ہوئے اپنے سوالات کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔


 


ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ