فقہاء کی نظر میں دشمن کے ساتھ مذاکرہ اور صلح جایز ہے یا نہیں؟

ID: 46150 | Date: 2016/12/19

علامہ حلی کتاب " القواعد " میں تحریر فرماتے ہیں:


"اگر مسلمانوں کی مصلحت اور مفادات تقاضا کرےکہ جنگ نہ کیا جائے تو صلح معاہدے پر دستخط کرنا جائز ہے بلکہ ضرورت کے تحت اور اسلامی معاشرے کی حفاظت کی خاطر جنگ سے گریز کرنا، واجب ہے"۔


محقق کرکی " القواعد " پر حاشیہ لکھتے ہیں:


" امام حسین(ع) نے مصلحت کے پیش نظر اقدام کیا ہے اور آپ علیہ السلام جانتے تھے کہ اگر یزید کے ساتھ کوئی معاہدہ کی بھی جائے، یزید بن معاویہ ہرگز اس پر پابند نہیں رہےگا اور موجودہ حالات و شرائط بھی اسلامی معاشرے کےلئے نقصان کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور اس حالت پر خاموش رہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی تعلیمات کے بر خلاف ہے"۔


استاد محلاتی کا کہنا ہےکہ کلی طور پر فقہا کے کلام میں مصلحت اور منافع کے پیش نظر صلح کرنے پر کوئی منفی رائے نہیں ملتی؛ بزرگان دین کے کلام میں بوقت ضرورت دشمن کے ساتھ صلح یا مذاکرات کرنا، غلط اور برا کام نہیں ہے۔


صدر اسلامی جمہوریہ ایران جناب شیخ حسن روحانی کا کہنا تھا:


"قیام امام حسین(ع) میں اخوت، بھائی چارگی اور ایک دوسرے کی غلطیوں پر درگزر کرنا کا پیغام ہے۔ قیام کربلا میں صبر و منطق، اخلاقیات اور شرعی موازین کے دائرہ میں گفتگو کرنے کا دروس ہے"۔


ہمیں ملتا ہے۔


 


استاد سروش محلاتی کے کلام سے اقتباس