دہشت گرد تنظیمیں، ابن تیمیہ کے نظریات سے پھوٹتا ہے

سید حسن: میری نظر میں جس ثقافت کو صحیح ثقافت کے عنوان سے اخلاقی زندگی کےلئے نمونہ عمل قرار دیا جاسکتا ہے، وہ "امام خمینی کا اخلاق" ہے۔

ID: 46128 | Date: 2016/12/24

سید حسن: میری نظر میں جس ثقافت کو صحیح ثقافت کے عنوان سے اخلاقی زندگی کےلئے نمونہ عمل قرار دیا جاسکتا ہے، وہ "امام خمینی کا اخلاق" ہے۔


اسلام ٹائمز: جب تک مسلم معاشرہ جدید تعلیم سے دور رہےگا اور اسے خود پہ حرام سمجھتا رہےگا، اس پہ داعش و بوکو حرام جیسے دہشت گرد مسلط ہوتے رہیں گے۔


سماجی رویوں میں جب قبائلی تفہیم در آئے تو اس کے نتیجے میں، القاعدہ، افغانی و پاکستانی طالبان، اور بوکو حرام جیسی شدت پسند تنظیمیں وجود پاتی ہیں اور مقصد سب کا ایک ہی ہے؛ اسلام جیسے امن پسند دین کے نام پر قتل و غارت گری۔


تاریخی طور پر یہ ثابت شدہ ہےکہ سامراجی مقاصد نے مذہبی جنونیت کو اپنے کام میں لایا۔


پاکستانی معاشرے کی غالب تعداد یا تو افغانی و پاکستانی طالبان کی وحشت ناکیوں سے واقف ہے یا ان کے فکری وارثوں کی مقامی و غیر مقامی تنظیموں سے، یا پھر داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے وجود کا اسے پتہ ہے۔


مجھے اس امر میں کلام نہیں کہ تمام دہشت گرد تنظیمیں، جو خود کو جہادی لکھتی اور کہتی ہیں، فکری مغالطوں کا شکار ہیں۔ سب کا فکری و فقہی سلسلہ قریب قریب ابن تیمیہ کے انتہا پسندانہ نظریات سے پھوٹتا ہے۔ کئی دنوں سے اس پر سوچ رہا ہوں کہ بوکو حرام کے محمد یوسف نے کیا سوچ کر یہ نعرہ بلند کیا کہ "مغربی تعلیم حرام ہے" بوکو حرام نائجیریا کی مسلم دہشت گرد تنظیم ہے۔


تنظیم نے 2009ء میں اسلامی ریاست بنانے کےلئے کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ اس کے ہاتھوں نائجیریا بھر اور خصوصاً ملک کے مشرقی علاقوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اپریل 2014ء میں بوکو حرام نے نائجیریا کے علاقے چیبوک کے سکول سے اس وقت 276 لڑکیوں کو اغوا کر لیا تھا، جب وہ سالانہ امتحانات دینے کےلئے وہاں موجود تھیں۔


حیرت اس بات پہ ہےکہ وہ مذہب جس کے واضح احکامات ہیں کہ ماں کی گود سے قبر کی گود تک تعلیم حاصل کرو اور جس دین کی الہامی کتاب کی پہلی آیت ہی تعلیم کے متعلق ہو، اس دین سے منسلک "سکالر" کیسے جدید عصری تعلیم کو حرام کہہ سکتا ہے؟


اللہ کے آخری نبی نے جب یہ کہا کہ علم حاصل کرو، خواہ تمھیں چین جانا پڑے، تو کیا چین اس وقت دینی و فقہی تعلیم کا گہوارہ تھا؟ نہیں، اس کا مطلب یہی تھا کہ اپنے عہد کی جدید ترین تعلیم حاصل کرو۔ یہ کیسا مذہبی سکالر ہے جو مغربی تعلیم بلکہ لباس و ایجادات تک کو حرام کہتا ہے، اس کا کہنا ہےکہ تعلیم صرف دین کی تعلیم ہے، مگر اس کے پیروکار خود مغرب کی بنی جدید ترین گاڑیاں بھی استعمال کرتے ہیں اور ابلاغ کے جدید ذرائع بھی، کیا کلاشنکوف جو سارے دہشت گردوں کا پسندیدہ ہتھیار ہے اور جسے بوکو حرام والے بھی استعمال کرتے ہیں، وہ کسی مدرسے کی ایجاد ہے؟


یہی فکری کجی جگ ہنسائی کا باعث بھی ہے اور مسلمانوں کی تباہی کا بھی۔ جب تک مسلم معاشرہ جدید تعلیم سے دور رہےگا اور اسے خود پہ حرام سمجھتا رہےگا، اس پہ داعش، القاعدہ، طالبان اور بوکو حرام جیسے دہشت گرد مسلط ہوتے رہیں گے۔ مغرب کے غلبے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ تعلیم ہے۔ دین میں قبائلی و عائلی روایات اور انتہا پسندانہ تفہیم نے غور و فکر کے دروازے بند کرکے قتل و غارت گری کو شعار بنا لیا۔ بوکو حرام ہو یا الشباب، داعش ہو یا طالبان، القاعدہ ہو یا النصرہ، سب ایک ہی سلسلے کے فکری پیروکار، سب دین اسلام کی آفاقی تعلیمات پر رسوا کن داغ ہیں۔ دنیا جب چاند پہ جانے کے راستے تلاش کر رہی تھی تو مسلمانوں کے گروہ اس بات پہ بحث کر رہے تھے کہ فلسفہ کی تعلیم حلال ہے یا حرام۔ بے شک تاریخخ  کسی کی رشتہ دار نہیں ہوتی، ہم مگر خوا مخواہ ماضی کے میناروں تلے فکری آرام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اے کاش ہم علم کی اہمیت کو جان سکتے۔ اے کاش۔ واللہ، علم کے سارے ذرائع حلال اور جائز ہیں۔ عصری علوم کا حصول واجب ہے۔


 


ماخذ: اسلام ٹائمز؛ طاہر یاسین طاہر