امام خمینی(رہ) کے دیدار کے بعد دنیا کی کوئی اور تمنا باقی نہیں رہی

شہید علی رضا نوروزیان

ID: 45259 | Date: 2016/09/24

بلاغ کی رپورٹ کے مطابق یہ تحریر کوئی کہانی نہیں بلکہ ایک قریب ،گلیوں اور  محلوں  کی تاریخ کا حصہ ہے جس کے سال  پچاس اور ساٹھ  میں  لوگ ہمارے درمیان موجود تھے  اس تاریخ کو فراموشی کے غبار اور بادلوں  نے دلوں سے پاک کیا لیکن قلم،کاغذ اور دنیا کی تمام چیزیں ان کو فراموش نہیں ہونے دیں گی،ایک دن ہو گا جب ہم دنیا کے لئے مریں گے لیکن کچھ ایسے بھی افراد تھے جنھوں نے قرآنی حکومت اور خداوند متعال کی عبادت کے لئے اس خاک پر پر جان کو راہ خدا میں قربان کردیا انھوں نے شروع سے ہی خدا سے اس قربانی کا وعدہ کیا تھا۔


خمینی کے علی اکبروں  کی روشن وصیت کا ایک ورق ہی ہمیشہ کے لئے کافی ہے انھوں نے اپنے متعلق تمام چیزوں سے دوری اختیار کر لی اور آسمانوں کی طرف پرواز کی۔


ہمارے شہر کی گلیاں کچھ عرصہ ان کے نورانی بیانات کی گواہ ہیں اُن ہزاروں مخلص اور بہادروں میں سے ایک شہید علی نورزیان جو قائم شہر کے دیہات ریکندہ کے رہنے والے تھے جنھوں نے مظلومیت اور غربت میں اپنی جان دی انکی ایک یادداشت مخاطبین کی خدمت میں پیش ہے۔


 


شہید کے ساتھی کی یادداشت


میں عزیزاللہ فرج پور ریٹائرڈ گارڈ اور شہید علی نوروزیان کا ساتھی ہوں اُنسٹھ میں جنگ کے شروعاتی دن تھے اور ہماری جنگ ایک دفاعی جنگ تھی ہمارا ہدف یہ تھا عراق کے فوجیوں کو اسلامی جمہوری ایران کی زمین میں نہ آنے دیا جاے ھم معمولا گوریلا کاروائی کرتے تھے اور کسی ایک جگہ نہیں ٹھرتے تھے ہر روز شہید علی رضا نوروزیان اور کچھ دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کی مورچوں کی طرف جاتے تھے اور مغرب تک دشمن کو پریشان کرتے تھے۔


شہید علی نوروزیان  کے اندر شہادت کا جذبہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا ایک بہادر انسان تھے ایسے انسان تھے جو قانون کو بہت اهمیت دیتے تھے یہاں تک کے ہر رات کو باقی ساتھیوں کو مجبور کرتے تھے اپنے ہتیاروں کوصاف کریں تانکہ کل جنگ میں کوئی مشکل نہ ہو۔


یہ عبادت پروردگار میں بھی بہت زیادہ منظم تھے اور تمام واجبات کو اول وقت انجام دیتے تھے راتوں کو اگر کوئی فوجی ساتھی تھکاوٹ کی وجہ سے چوکیداری کے لئے تیار نہ ہوتا تو یہ اس سے کہتے تھے تم جاو آرام کرو میں خود تمھاری جگہ چوکیداری کروں گا بہت عرصہ تک جنگ میں مشغول رہے ایک دن گھر سے خط آیا کہ کیوں چھٹی لیکر گھر نہیں آتے میں نے اور کچھ دوسرے دوستوں نے ان سے کہا کے آپ کچھ عرصہ کے لئے چھٹی لے لیجے اور اپنے گھر والوں سے ایک ملاقات کر لیجے لیکن انھوں نے جواب دیا ہم ابھی جنگ میں ہیں اور دشمن ہر روز ہماری سرزمین پر قبضہ کر رہا ہے ان حالات میں کس طرح  چھٹی پر جاوں۔


معمولا راتوں کو سلپینگ بیگ کے ساتھ ہی مورچوں میں سو جاتے تھے ایک دن انھوں نے مجھے کہا کچھ راتوں سے جب میں سوتا ہوں کوئی چیز میرے بستر کے نیچے حرکت کرتی ہے ہم دونوں گے اور ان کے سلیپینگ بیگ کو اُٹھایا دیکھا کہ ایک بہت بڑا سانپ ہے تھوڑا ڈرے میں کوئی ایسی چیز ڈھوندنے لگا جس سے اس سانپ کو مارا جائے لیکن شہید نے میرا ہاتھ پکڑلیا اور کہا یہ سانپ ایک ہفتہ سے میرے بستر کے نیچے ہے اگر اس کو حملہ کرنا ہوتا تو آج تک کر چکا ہوتا لہذا اس کے مارنے میں میں راضی نہیں ہوں ہم اپنے مورچوں کو بدل لیں گے بہر حال انھوں نے مجھے  سانپ کو مارنے نہیں دیا بعد میں سانپ نے بھی مورچہ کو ترک کردیا۔


فوجی تدابیر سے مکمل طور پر آشنا تھے ہمیشہ کہتے تھے ہمیں ہمیشہ دفاعی حکمت عملی پر کام نہیں کرنا چاہیے یہ جو غذا ہم تک پہونچتی ہے بیت المال سے ہے ہم پر فرض ہے کہ ہم دفاع کے ساتھ ساتھ دشمن کے ٹھکانوں پر بھی حملہ کریں اور انکی پیشرفت میں رکاوٹ ڈالیں اور انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کریں ان کی اس حکمت عملی سے ہم نے کچھ علاقوں کو آزاد کروایا تھا۔


شهید علی رضا نوروزیان ریکنده


باپ کا نام : رمضان


تاریخ ولادت : 1335/01/05


تاریخ شهادت : 1359/10/19


مقام ولادت : قائم شهر



محل شهادت : کنجان چم(ایلام)