کیوں قرآن مجید میں دوسرے ادیان کے پیروکار کی نجات کے امکان کا اعلان کیا گیا ہے؟

ID: 44749 | Date: 2016/07/26

اسلام واحد برحق دین ہونے کے باوجود، کیوں قرآن مجید میں دوسرے ادیان کے پیروکار کی نجات کے امکان کا اعلان کیا گیا ہے؟


سورہ مائدہ کی آیت نمبر69 کی تفسیر کیا ہے؟


إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ الَّذينَ هادُوا وَ الصَّابِئُونَ وَ النَّصارى‏ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ عَمِلَ صالِحاً فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ / مائده،69


ادیان کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد، دنیا اور آخرت میں انسان کےلئے سعادت و نجات حاصل کرنا ہے اور ضمانت دیتا ہےکہ جو بھی شخص حقیقی معنوں میں اس دین کا پیرو ہو، وہ نجات پائےگا۔ یہاں تک تمام ادیان مشترک ہیں اور اپنے پیروکار کےلئے نجات کی بشارت دیتے ہیں۔


اسلام کی تعلیمات میں ابتداء سے ہی مقدس ترین متن ﴿قرآن مجید﴾ میں اس مطلب کا اعتراف کیا گیا ہےکہ اگر غیر مسلم اپنی پاک فطرت پر زندگی بسر کریں، نیک کام انجام دیں اور حقیقی طور پر دین اسلام ان کےلئے واضح نہیں ہوا ہو تو، وہ نجات پاسکتے ہیں۔ یہ مطلب، قرآن مجید کی مختلف آیات میں مکمل صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دین اسلام حق نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید کی بنا پر، نجات کا دائرہ حقانیت سے وسیع تر ہے، یعنی جن انسانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ادراک نہیں کیا ہے ﴿ بلکہ بہتر ہے یہ کہیں کہ اسلام اور اس کی حقیقت کو ادراک نہیں کیا ہے﴾ لیکن اس کے باوجود ان کے اعمال ان کی پاک فطرت پر مبنی ہوں، خدا پر ایمان رکھتے ہوں، فطرت کی طرف سے منع کی گئی، جھوٹ اور زنا جیسی برائیوں کو ترک کیا ہوں، عالم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں، آخرت میں حساب و کتاب کی فکر میں ہوں اور اسی طرح نیک کام انجام دیتے ہوں، تو مذکورہ آیت انھیں کہتی ہےکہ اس جماعت کےلئے کوئی خوف نہیں ہے۔


آیہ شریفہ کی مختصر تفسیر
“ ان الذین آمنوا ” سے مراد وہ لوگ ہیں، جنھوں نے زبان سے اور بظاہر ایمان لایا ہے۔/۱


“ الذین ھادوا و النصاری” سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔/۲


صائبین کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔ بہت سے مفسرین، معتقد ہیں کہ وہ یہودیت اور عیسائیت کے درمیان ہے اور ان کی ایک کتاب بھی ہے، جسے وہ حضرت یحیی بن زکریا﴿ع﴾ سے منسوب کرتے ہیں۔/۳


اس بنا پر، اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں یوں کہا جاسکتا ہےکہ: جن انسانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ادراک نہیں کیا ہے ﴿بلکہ اسلام اور اس کی حقیقت کو ادراک نہیں کیا ہے﴾ لیکن اس کے باوجود ان کے اعمال ان کی پاک فطرت پر مبنی ہوں، خدا پر ایمان رکھتے ہوں، عالم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں، تو مذکورہ آیت انھیں کہتی ہےکہ اس جماعت کےلئے کوئی خوف نہیں ہے۔/۴


 




۱/۔ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، ج 1، ص 50، انتشارات دانشگاه تهران، مدیریت حوزه علمیه قم، تهران، طبع اول، 1377ش؛ شبّر، سید عبد الله، تفسیر القرآن الکریم، ص 49، دار البلاغة للطباعة و النشر، بیروت، طبع اول، 1412ق؛ ‏زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج 1، ص 146، دار الکتاب العربی، بیروت، طبع سوم، 1407ق.


۲/۔ شریف لاهیجی، محمد بن علی، تفسیر شریف لاهیجی، تحقیق: حسینی ارموی (محدث)، میر جلال الدین، ج 1، ص 60، دفتر نشر داد، تهران، طبع اول، 1373ش؛ حسینی شیرازی، سید محمد، تقریب القرآن إلی الأذهان، ج 1، ص 138، دار العلوم، بیروت، طبع اول، 1424ق.


۳/۔ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 14، ص 358، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع پنجم، 1417ق.


۴/۔ الميزان فی تفسير القرآن، ج‏ 1، ص 193؛ تفسير نمونه، ج ‏1، ص 283.


 


ماخذ: اسلام کوئست نت؛ تلخیص کے ساتھ