۲۷ رجب المرجب بعثت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ کی یاد میں:

بعثت النبی، امام خمینی کی نظر میں

رسول اکرم[ص] کی بعثت کا دن پورے زمانے ''مِنَ الازَل اِلی الابد'' با شرف ترین دن ہے، چونکہ اس سے بڑا اور کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔۔۔

ID: 43812 | Date: 2016/05/04

قائد عظیم الشان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای [مدظلہ العالی] روز بعثت کو انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور با برکت ترین دن قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "عید سعید مبعث قیامت تک انسان کی سعادت کا منشاء اور خیرات و برکات کا سرچشمہ ہے"۔


تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کا باعث بنا ہے اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑے ہیں اور یہ واقعہ نہ فقط اپنے زمانے کے لحاظ سے اہم تھا بلکہ آئندہ زمانے کےلئے بھی اس کی اہمیت اپنے زمانے سے زیادہ اہم ہے۔


امام خمینی ایک فقیہ اور عارف ہونے کے لحاظ سے ایک ایسے صاحب نظر عالم دین ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہ[ص] کی شریعت کو طریقت اور عملیت کے میدان میں پیش کیا ہے اور رسالت مآب کے پیغام کا عملی تجربہ کیا ہے اور اسے جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے پیش کرنے کی جرائت کی ہے اور یہ ختمی الرسل کی بعثت اور لائی ہوئی شریعت پر امام خمینی کے محکم ایمان اور یقین کی دلیل ہے۔
امام خمینی بعثت اور شریعت محمدیہ کو نہ فقط اعتقادی نظر سے دیکھتے تھے بلکہ اس کو عملی میدان میں پیش کرنے اور اس کو دنیا کے تمام نظام ہائے زندگی سے برتر سمجھتے تھے اور اسی یقین کامل کے ساتھ اُنہوں نے بعثت الرسول کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت کے احیاء کی کوشش کی اور اسے اپنے یقین محکم کے ساتھ عصر حاضر کے پیچیدہ ترین نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں لا کھڑا کیا اور پوری دنیا پر بعثت محمدی[ص] کی حقانیت ثابت کر دی۔


یہ فقط امام خمینی کا امتیاز ہے کہ جنہوں نے پیغام رسالت اور فلسفہ بعثت کو عمل کے میدان میں پیش کیا ہے، لہٰذا بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بارے میں امام خمینی کے افکار فقط ایک عالم دین اور فقیہ کے افکار نہیں بلکہ ایک عارف کامل، ایک فیلسوف اور ایک ماہر سیاستدان اور ایک طاقتور اسلامی حکمران کے افکار ہیں جس نے سیاست حضرت رسول اور پیغام بعثت کا تجربہ عملی طور پر کیا ہے۔


بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بارے میں امام خمینی کے افکار پیش خدمت ہیں:


تاریخ کا عظیم واقعہ


رسول اکرم[ص] کی بعثت کا دن پورے زمانے ''مِنَ الازَل اِلی الابد'' با شرف ترین دن ہے، چونکہ اس سے بڑا اور کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔۔۔ کیونکہ اس عالم میں سوائے خداوند متعال کی ذات مقدس کے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے عظیم تر ہستی کوئی بھی نہیں ہے اور آپ[ص]  کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے اور یہ واقعہ اس دن رونما ہوا ہے اسی نے اس دن کو عظمت اور شرافت عطا کی ہے۔ اس طرح کا دن ہمارے پاس ازل وابد میں نہیں آیا اور نہ آئےگا۔ لہذا میں اس دن کے موقعہ پر تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے مستضعف لوگوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔


صحیفہ نور، ج١٢، ص١۶٨۔


عالم بشریت کا وحی کے فواہد اور تعلیمات سے بہرہ مند ہونا


بعثت کا ایک محرک یہ ہے کہ یہ قرآن کہ جو غیب میں [اور]۔۔۔ علم خدا میں تھا اور غیب الغیوب میں تھا، اس عظیم ہستی[ص] کے ذریعے، وہ ہستی کہ جس نے بہت زیادہ مجاہدت و ریاضت کرنے اور حقیقی فطرت اور توحیدی فطرت پر ہونے کی وجہ سے اور غیب کے ساتھ رابطہ رکھنے کی وجہ سے اس مقدس کتاب کو مرتبہ غیب سے متنزل کیا ہے۔۔۔ اور اب ان الفاظ کو ہم اور آپ سب سمجھ سکتے ہیں اور اس کے معانی سے اپنی توان اور (استعداد) کے مطابق فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔


بعثت کا مقصد اس دسترخوان نعمت کو لوگوں کے درمیان نزول کے زمانے سے لے کر قیامت تک بچھانا ہے اور یہی بات کتاب خدا کے نزول کے اسباب میں سے ایک سبب اور رسول اکرم کی بعثت کی اصل وجہ ہے۔۔۔


پس بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی وجہ وحی اور قرآن کا نزول ہے اور انسانوں کےلئے تلاوت قرآن کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا تزکیہ کریں اور ان کے نفوس گناہ کی اس ظلمت وتاریکی سے پاک ہوں جو ان کےاپنے اندر موجود ہے اور اس پاکیزگی اور تزکیہ کے بعد ان کی روحیں اور اذہان اس قابل ہوں کہ کتاب وحکمت کو سمجھ سکیں۔


صحیفہ نور، ج١۴، ص٢۵٢۔


نور ہدایت کے حصول کےلئے نفوس کا تزکیہ


جو لوگ بعثت کو ایک الٰہی بعثت سمجھتے ہیں اور بعثت کا محرک تمام مخلوق کی ہدایت جانتے ہیں؛ اُنہیں بعثت کی غرض و غایت کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور بعثت کے اس محرک کی طرف توجہ کرنی چاہیے، چونکہ خداوند متعال نے بعثت کا محرک اس طرح بیان فرمایا ہے :


''یَتلوا عَلَیھم آیاتِہِ وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الکِتابَ وَالْحِکْمَة'' سورہ جمعہ/٢ انسان میں ہدایت کی روشنی تزکیہ نفس سے پیدا ہوتی ہے۔


صحیفہ نور، ج١۴، ص٢۵۵۔


عظیم ترین علمی و عرفانی انقلاب


بعثت کا مسئلہ اور اس کی ماہیت و برکات کوئی ایسی چیز نہیں کہ جسے ہماری لکنت زدہ زبانوں سے بیان کیا جاسکے۔ اس کے پہلو اس قدر وسیع ہیں اور اس کی معنوی اور مادی جہات اس قدر زیادہ ہیں کہ جن کے بارے میں گفتگو کرنے کا میں گمان بھی نہیں کر سکتا۔


رسول اکرم [ص] کی بعثت نے تمام عالم میں ایک علمی وعرفانی انقلاب برپا کیا ہےکہ جس نے یونانیوں کے فلسفے کو اہل شہود ومعرفت کےلئے ایک عرفان حقیقی اور شہود واقعی میں تبدیل کردیا ہے۔ کسی کےلئے بھی قرآن کے اس پہلو کا انکشاف نہیں ہوا سوائے اُن لوگوں کےلئے جو اس کے حقیقی مخاطب ہیں۔۔۔ اسلام کے عظیم عرفا بھی قرآنی حقائق کو کشف کرنے میں عاجز ہیں۔ قرآن کی زبان کہ جو بعثت کی برکت اور رسول خدا[ص] کی بعثت کی عظیم برکات میں سے ہے۔


صحیفہ نور، ج١٧، ص٢۵٠۔


انسان کے ادراک سے بالا معجزہ


بعثت کا واقعہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کے بارے میں ہم کوئی بات کرسکیں۔ ہم فقط اسی قدر جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہوا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟


تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا مافوق ہونا ایک ایسے انسان کےلئے بہت بڑا معجزہ ہے کہ جس نے زمانۂ جاہلیت میں پرورش پائی اور ایک ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی کہ جس میں ان باتوں کا دور دور تک نام ونشان موجود نہیں تھا۔۔۔


یہ وہ معجزہ ہے کہ جو اہل نظر افراد کےلئے پیغمبر کی نبوت پر دلیل ہے۔۔۔


یہ ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس کے بارے میں بات نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ حقیقت کسی کےلئے کشف ہوئی ہے سوائے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کےلئے اور ان خاص الخاص افراد کےلئے جو آپ[ص] سے مربوط ہیں۔


صحیفہ نور، ج٢٠، ص٧٨۔


شریعت اسلام کی جامعیت، اسلام کے وحیانی ہونے پر دلیل


خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت کے اثبات کےلئے ہمارے دلائل کا نچوڑ یہ ہے کہ جس طرح تخلیق کائنات کی مضبوطی اور اس کی حسن ترتیب وبہترین نظم، ہم کو یہ بتاتا ہےکہ ایک ایسا موجود ہے جو اس کی تنظیم کرتا ہے، جس کا علم تمام باریکیوں، خوبیوں اور کمالات پر محیط ہے، اسی طرح ایک شریعت کے احکام کا اتقان، حسن نظام، ترتیب کامل، تمام مادی ومعنوی، دنیوی واخروی، اجتماعی وفردی ضروریات کی مکمّل طور پر ذمہ داری قبول کرنا بھی، ہم کو یہ بتاتا ہے کہ اس کے منتظم اور چلانے والے کا علم بھی لامحدود ہوگا اور وہ افراد بشر کی ضرورتوں سے واقف ہوگا اور چونکہ یہ بات بدیہی ہےکہ یہ سارا کام ایک ایسے انسان کے عقلی قوتوں کا ہرگز مرہون نہیں ہوسکتا، جس نے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہ کیا ہو، جس کی تاریخ حیات ہر قوم وملت کے مورخین نے لکھی ہو، جس نے ایک ایسے ماحول میں تربیت پائی ہو جو کمالات وتعلیمات سے عاری ہو، ایسا شخص اتنا کامل نظام نہیں بنا سکتا۔


اس لئے یقیناً غیب اور ماوراء الطبیعہ سے اس شریعت کی تشریح ہوئی ہے اور وحی والہام کے ذریعے آنحضرت[ص] تک پہنچائی گئی ہے: ''وَالحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ وُضُوحِ الحُجَّة''۔


چہل حدیث، ص٢٠١۔


اللہ حافظ


التماس دعا


بمعہ اصلاحات، ماخذ: تبیان