امام خمینی(رح) کے عرفان اور نئے وجود میں آنے والے عرفانوں میں فرق(2):

عرفان امام(رہ) میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کا موقع، فراہم

ان عرفانوں کا نفی اور اثبات کسی بھی حوالے سے ان کا دین سے کوئی سرو کار نہیں۔

ID: 42989 | Date: 2016/01/26

 جماران ویب سائٹ کے مطابق ڈاکٹر بیوک علیزادہ نے اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے نئے وجود آنے والے عرفانوں کی خامیوں اور بنیادی نقطہ نظر کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا:


۱۔ تمام نئے وجود میں آنے والے عرفان کی تحریکیں، سیکولرزم ہیں؛ یعنی ان عرفانوں کا نفی اور اثبات کسی بھی حوالے سے ان کا دین سے کوئی سرو کار نہیں۔


۲۔ جو جذابیت، پذیرایی اور دلچسپی دینی عرفان جیسے عرفانی اسلام رکھتا ہے، مسیحی اور یہودی عرفان ہرگز حاصل نہیں کرسکتے؛ کیونکہ کہ دینی عرفان، ایک فطری اور بہت ہی فوق العادہ مضبوط اور گہرا رشتہ یعنی خداجویی اور خداپرستی سے متمسک ہے۔  


 آپ نے مزید بیان کیا؛ بدیہی ہے کہ امام خمینی(رح) کے عرفان سے آشنایی کےلئے، امام کے عرفانی آثار کا مطالعہ ضروری ہے، خوش قسمتی سے آج یہ آثار بہترین صورت میں طبع اور نشر ہوچکے ہیں؛ مزید یہ کہ موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی کے محققین کی سعی وکوشش سے امام خمینی اور انقلاب اسلامی کے ریسیرچ سینٹر خود ایک عظیم تحقیق گاہ میں تبدیل ہو نے کے شرف میں ہے۔ 


خلاصہ یہ کہ امام خمینی(رح) کے عرفان سے شایستہ، بہتر اور ضروری آشنایی کےلئے، ضروری تعلیمی اور تحقیقی مراتب کا طے کرنا ناگزیر ہے۔ اب تک امام خمینی(رح) کے عرفان کی تعلیم کےلئے دو تعلیمی درجہ ایم اے اور پی اچ ڈی، مدنظر رکھا گیا ہے، لیکن ابھی ایک تشریحی اور قابلیت و مہارت میں اضافہ کرنے کےلئے ایک خاص پروگرام کی ضرورت، جسے طالب علم، امام خمینی(رح) کے ریسریچ سینٹر اعلی تعلمیی مراحل کا آغاز کرنےسے پہلے گزار چکا ہو، کا احساس بڑی شدت سے کیا جا رہا ہے۔


مجھے امید ہے کہ ذمہ دار مسئولین، کی ہمت سے یہ نقض بہت جلدی ہے رفع ہوگی اور اس طرح عرفان امام خمینی(رح) کا پروجیکٹ مکمل ہوجائے اور تجربہ حاصل ہونے کے ساتھ یہ پروجیکٹ آہستہ آہستہ دوسرے ممالک میں شروع کیا جائے۔ ابھی تک اس کا زمینہ، مشرق وسطی کے چیدہ چیدہ ملکوں میں ضرورت کے احساس کی حد تک کبھی کبھار تعاون اور ہم کاری کی درخواست کی شکل میں پیش کش کی جا چکی ہے۔


لیکن عرفان امام خمینی(رح) سے آشنایی کےلئے یہاں ہم صرف امام خمینی(رح) کے عرفان کی کلی خصوصیات و امتیازات فہرست وار تھوڑی تشریح کے ساتھ پیش کرتے ہیں:


الف) انقلاب کا پروجیکٹ کی عرفان کے چار سفروں پر تطبیق


ب) عرفان، فلسفہ اور سیاست کی آپس میں دوستی


 ج) فرض اور فریضہ شناسی کو معیار بنانا


د) انقلاب کی ہدایت اوراس سے برآمدہ شدہ نظام کے ارادہ کے حالات کی عرفانی طبقات کی پر تطبیق  


ہ) عرفان، فقہ، فلسفہ اور سیاست کی آپس میں دوستی


عرفان کے چار سفروں سے مراد وہی سبق اور تعلیم ہے جو اکثر و اغلب عرفانوں میں مشترک ہے، مذکورہ چار سفر درج ذیل ہیں:


الف) سیر من الخلق الی الحق: یعنی جہاں ہم ہیں، وہاں سے اللہ سبحانہ تعالی کی طرف ہر قسم کی برائیوں اور گندگیوں سے پاکیزہ ہوکر ذاتِ حق کے فضایل سے آراستہ ہونے کےلئے سفر کرتے ہیں ۔


ب) سیر من الحق الی الحق: یہ سفر اللہ تعالٰی کی صفات کی شناخت اور خود کو ان سے آراستہ کرنے سے حاصل ہوگا۔


ج) سیر من الحق الی الخلق مع الحق: سفر کے اس مرحلہ میں عرفان کے راستے طے کرنے والا (سالک) نے جو کچھ اب تک اس نے حاصل کیا ہے، ان تمام ذخائر کے ساتھ مخلوقات کی طرف لوٹتا ہے۔


د) سیر فی الخلق مع الحق: اس مرحلے میں عارف، حق کا مالک ہے، چنانچہ مخلوقات میں سیر کرتا ہے اور ان کی رہنمایی، مدد اور خدمت میں مصروف ہوجاتا ہے۔




(جاری ہے)


ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ