معاشرے کے مختلف طبقات کو حب نفس سے دوری کی نصیحت

جب لوگ دیکھتے ہیں کہ کسی شخص کی تحریر زہر آلود ہے تو اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں

ID: 41954 | Date: 2015/12/09

بدگمانی سے اجتناب کیجئے۔ آپ کے دل میں  جو محبت یا کینہ ہے وہ حقیقت کے برخلاف نہ ہو۔ حقیقت کے منافی نہ لکھیں ، نہ بولیں ۔ وہی بولیں  جو حقیقت ہے۔ البتہ میں  یہ نہیں  کہتا کہ آپ بے حیائی کی تائید اور ترویج کریں ، یہ شریعت کے منافی اور گناہ کبیرہ ہے۔


البتہ لوگوں  کو نصیحت اور بیدار کرنے کیلئے کمزور پہلوؤں  کی نشاندہی ضرور کریں  لیکن نرمی کے ساتھ۔ کہیں  ایسا نہ ہو کہ آپ کی تحریر کے باعث سننے والوں  پر برا اثر مرتب ہو۔ اگر آپ ذاتی اغراض کے تحت کوئی بات کریں  جو کسی شخص کو جا لگے تو وہ شخص بھی کوئی غرض آلود بات کہے گا کیونکہ وہ بھی اتنا تربیت شدہ تو نہیں  کہ وہ آپ کی بات سے چشم پوشی کرے۔ چنانچہ وہ کچھ زیادہ ہی سخت بات کرے گا پھر جو اس کے مقابلے میں  ہے وہ اس سے بھی سخت تر رویہ اختیار کرے گا۔


اگر ہم یہ چاہتے ہیں  کہ ہمارا ملک صحیح معنوں  میں  ہمارا ہو اور دوسروں  کو اس پر تسلط حاصل نہ ہوسکے تو آج ہمارے تمام طبقات کو متحد ہونا پڑے گا اور ان دل بستگیوں  یا نفرتوں  سے دستبردار ہونا پڑے گا جن کی بنیاد وہی حب نفس ہے۔ حب نفس کو ذرا سا لگام دینا ہوگا۔ لوگ اسے ختم تو نہیں  کرسکتے لیکن اسے کم کرنا ہوگا۔ وقتی طورپر اسے کم کرنا ہوگا تاکہ مطلوبہ کامیابی حاصل ہو۔ انہیں  چاہیے کہ عارضی طورپر اپنی تحریروں  کو لگام دیں  اور اگر نصیحت کرنا چاہتے ہیں  تو نصیحت کو نصیحت رہنے دیں ۔ نصیحت کو انسان قبول کرسکتا ہے لیکن سخت گوئی کو کوئی شخص بھی برداشت نہیں  کرسکتا خواہ وہ جیسا ہو۔ ہمیں  ان بزرگوں  سے سبق سیکھنا ہوگا۔


آپ نے مالک اشتر کا واقعہ تو سن ہی رکھا ہے۔ مالک کو کسی نے گالی دی اور جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ یہ تو مالک اشتر تھے تو وہ ان کی تلاش میں  نکل پڑا۔ وہ مسجد میں  نماز پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے معذرت طلب کی۔ (روایت کے مطابق) انہوں  نے کہا: ’’میں  مسجد میں  اس لیے آیا ہوں  تاکہ تیرے لیے مغفرت طلب کروں ‘‘ دیکھئے اس قسم کا کام کس قسم کا تربیتی اثر چھوڑتا ہے۔


کہتے ہیں  کہ کسی شخص نے خواجہ نصیر الدین (رضوان اﷲ علیہ) کے نام بعض باتوں  پر مشتمل تحریر لکھی جس میں  ان کی شان میں  گستاخی کی گئی تھی اور انہیں  ’’کلب (کتا)‘‘ کہا گیا تھا۔ (نقل کے مطابق) جب خواجہ نے جواب لکھا تو اس شخص کے ایک ایک اعتراض کو حکیمانہ انداز میں  رد کیا۔ پھر جب گفتگو وہاں  پہنچی جہاں  انہیں  ’’کتا‘‘ کہا گیا تھا تو انہوں  نے لکھا: نہیں  میرے اوصاف، خواص اور آثار کتے کے اوصاف، خواص اور آثار سے مختلف ہیں ۔ کتے میں  فلاں  صفت موجود ہے جو میرے اندر نہیں ۔ میرے اندر فلاں  خصوصیت ہے جو کتے میں  نہیں ۔ یوں  خواجہ نے مسئلے کو اس طریقے سے حل کیا۔ دیکھئے اگر خواجہ بھی اپنے خط میں  یہ لکھتے کہ تو کتا ہے اور تیرا باپ بھی کتا ہے تو دوسرے دن اس کی طرف سے ایک اور تحریر موصول ہوتی جس میں  مزید تین چیزوں  کا اضافہ ہوتا۔ جب مہم نرم زبان اور نصیحت آمیز گفتگو کے ذریعے (جو غرض آلود اور زہر آلود نہ ہو) لوگوں  کی اصلاح کرسکتے ہیں ، اپنے دوستوں  میں  اضافہ کرسکتے ہیں  اور سچ مچ ایسا یہی ہو تو پھر کیا ضرورت ہے کہ انسان اپنے قلم سے اپنے آپ کو نقصان پہنچائے؟ بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں  کہ اس کی گفتگو فلاں  شخص کے خلاف ہے اور اس سے اس کی سرکوبی ہوگی۔ درحقیقت اس سے پہلے خود اس کی سرکوبی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس بات کو نہیں  سمجھتے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں  کہ کسی شخص کی تحریر زہر آلود ہے تو اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ اس قسم کے طرز عمل کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ انسان کی دوسرے انسان کو ملائم گفتگو، ملائم تحریر، نصیحت آمیز اور دوستانہ انداز میں  راہ راست پر لا سکتا ہے جیسا کہ انبیاء  (ع) کی روش تھی۔


صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۱۸