سید احمد خمینی(رح): (3)

وہ قرارداد جو ہماری قوم کے مفاد میں ہو، اس پر علمدرآمد ہوگا

خفیہ دستاویزات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان میں سے بعض امریکی خفیہ ادارے CIA کے ایجنڈ ہیں ۔۔۔

ID: 41717 | Date: 2015/11/11

جماران رپورٹ کے مطابق: حجت‌ الاسلام و المسلمین سید احمد خمینی جب امریکی عورتوں اور سیاہ فام یرغمالی ایران سے جانے کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے مہرآباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچے تو انہیں خبرنگاروں کے سئوالات کا سامنا کرنا پڑھا۔


 


سوال: کیا آپ ایران اور امریکہ کے درمیان طے شدہ تمام معاہدوں کی منسوخی کی حمایت کرتے ہیں؟


سید احمد: امریکہ کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتوں میں سے فقط انہی پر عمل درآمد کی توثیق کی جائےگی جو ہمارے فائدے میں ہو، اس کے علاوہ دوسرے تمام معاہدوں کو منسوخ کیا جائےگا۔


سوال: امریکہ اب تک ایران کے خلاف تقریبا تمام اسلحوں کو ہتھیار کے طور پر آزما چکا ہے، اس وقت اس بات کا امکان پایا جاتا ہےکہ ایران کے ساتھ تعلقات ختم کردے، تو آئندہ رونما ہونے والےحالات سے متعلق آپ کیا سوچیں گے؟ نیز امریکی یرغمالیوں کے ساتھ  ہمارا سلوک کیا ہوگا؟


سید احمد: امام کے دستور کے مطابق ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائےگا اور عدالت کی جانب سے مقرر کردہ حکم پر عمل درآمد کیا جائےگا۔


سوال: امام نے اپنے بیان میں فقط ان لوگوں کی رہائی کا حکم دیا ہے جو جاسوسی میں ملوث نہیں، کیا امام کے اس بیان کا مطلب فقط خدمتـکار لوگ ہیں یا وہ تمام افراد ہیں جن کے خلاف جاسوسی کا الزام ثابت نہیں ہوا ہے؟


سید احمد: اس میں شک نہیں کہ یہاں کوئی عام سفارت خانہ نہیں تھا ۔۔۔۔ لیکن امام کے دستور کے مطابق جن لوگوں کو رہا کیا جائےگا صرف وہی افراد ہوں گے جو جاسوسی میں ملوث نہیں اور انہیں جاسوسی میں ملوث نہ پایا گیا ہو، اگرچہ خفیہ دستاویزات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان میں سے بعض امریکی خفیہ ادارے CIA کے ایجنڈ ہیں ۔۔۔ ان دستاویزات سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ امریکی سفارت خانہ نے، ایران کے صوبے کردستان اور خوزستان میں تخریبی کاروائیوں سمیت پروپیگنڈے اور افواہوں کے ذریعے تمام سرکاری سکولوں کی تعطیلی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، اسی لئے ہمیں یقین ہے کہ یہ سفارت خانہ نہیں بلکہ جاسوسی کا مرکز ہے۔ اس وقت جن لوگوں کو آزاد کیا گیا ہے صرف وہی لوگ ہیں جو جاسوسی میں ملوث نہیں تھے اور سہ پہر تک جن افراد کو رہا کیا جائےگا ان کے جاسوسی میں ملوث ہونے سے متعلق تحقیقات ہو رہی ہیں اور ان کی تعداد تقریبا دس ہے۔


 


جماران ویب سائٹ