قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے:

اتحاد و یگانگت کو دنیائے اسلام کے لئے شفابخش نسخہ قرار دیا

علاقے میں موجود تفرقہ و اختلافات غیر فطری اور باہر سے مسلط کردہ ہیں اور عالم اسلام کے علما، دانشوروں، حکومتی عمائدین، رہنماؤں، مفکرین اور ممتاز شخصیات کو چاہئے کہ امت مسلمہ کے اندر تفرقہ و اختلاف پھیلانے والے خیانت کار عناصر پر توجہ دیں۔

ID: 40851 | Date: 2015/07/18

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے اعلی حکام، مختلف عوامی طبقات اور تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں سے ملاقات میں اتحاد و یگانگت کو دنیائے اسلام کے لئے شفابخش نسخہ قرار دیا۔ 
عید الفطر کو ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقے میں جاری مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ منصوبہ بند سازش ہے، جس کا مقصد مسلمان اقوام کی توجہ صیہونی حکومت کی جانب سے ہٹانا ہے۔ 
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے عالم اسلام کے المناک حالات اور اتحاد و یکجہتی کے فقدان کا ذکر کیا اور فرمایا: "علاقے میں موجود تفرقہ و اختلافات غیر فطری اور باہر سے مسلط کردہ ہیں اور عالم اسلام کے علما، دانشوروں، حکومتی عمائدین، رہنماؤں، مفکرین اور ممتاز شخصیات کو چاہئے کہ امت مسلمہ کے اندر تفرقہ و اختلاف پھیلانے والے خیانت کار عناصر پر توجہ دیں۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صیہونی حکومت کی جانب اسلامی حکومتوں کے اندر بعض عناصر کے جھکاؤ کے باوجود اس حکومت کے تعلق سے مسلمانوں کے اندر موجود نفرت و ناگواری کے جذبات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ استکباری طاقتیں، بعض اسلامی حکومتوں کے اندر کچھ نابکار افراد کے تعاون سے مسلم اقوام کے ذہنوں کو صیہونی حکومت کی جانب سے ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ جنگوں کی منصوبہ بندی اور القاعدہ اور داعش جیسی جرائم پیشہ تنظیموں کی تشکیل کر رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "عراق میں استکبار کی پالیسی عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کو سرنگوں کرنے، شیعہ و سنی تنازعے کو ہوا دینے اور سرانجام عراق کی تقسیم پر مرکوز ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق، شام، یمن، لبنان اور بحرین جیسے علاقائی بحرانوں میں اپنے مفادات کی فکر میں نہیں ہے، بلکہ اس کا نظریہ ہے کہ ان ملکوں میں فیصلے کا حق عوام کو ہے اور دوسروں کو مداخلت اور فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا: "امریکی، لبنان کے مزاحمتی محاذ کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور حزب اللہ کی حمایت کی وجہ سے ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں، جبکہ حقیقت میں دہشت گرد خود امریکی ہیں جنھوں نے داعش کو وجود بخشا ہے اور خبیث صیہونیوں کی حمایت کر رہے ہیں اور دہشت گردی کی پشت پناہی پر ان کے خلاف مقدمہ چلنا چاہئے۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: "امریکی رہنما انتہائی غیر منصفانہ بات کرتے ہیں اور روشن حقائق کا بڑی بے شرمی سے انکار کر دیتے ہیں۔" آپ نے فرمایا: "یہ جو کہا جاتا ہے کہ امریکیوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اس کی وجہ یہی ہے، کیونکہ ان کے یہان صداقت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔"
امام خامنہ ای نے فرمایا: "ایٹمی مذاکرات کی اسی دشوار آزمائش میں بھی جس کے تعلق سے ہمارے صدر محترم دیگر متعلقہ افراد نے بڑی زحمت کی، ہم نے بارہا امریکیوں کی بد دیانتی کا مشاہدہ کیا، خوشی کا مقام ہے کہ حکام نے اس کا مقابلہ کیا اور بعض اوقات تو انقلابی انداز میں پیش آئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی بیرونی میڈیا کی وسیع مہم کا حوالہ دیتے ہوئے زور دیکر کہا کہ ان سازشوں کے مقابلے کا واحد طریقہ، ملی و عمومی تقوا نیز ایمان، علم، صنعت اور ثقافت کی تقویت کے ذریعے داخلی قوت و اقتدار کا تحفظ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطاب سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے اپنی تقریر میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو عید فطر کی مبارکباد دی اور ماہ رمضان کو ایمان کے امتحان کا مہینہ، استقامت کا مہینہ اور مزاحمت و بردباری کا مہینہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سال کا ماہ رمضان ہم دلی و ہم زبانی اور پاکیزہ فطرت انسانی کی جانب بازگشت کا مہینہ تھا۔
صدر روحانی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے سفارت کاری اور مذاکرات کی توانائی کے نام کی ایک نئی طاقت ساری دنیا کے سامنے پیش کی۔ صدر روحانی نے علاقے میں رونما ہونے والے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سال کا ماہ رمضان عراق، شام اور یمن سے لیکر فلسطین، لبنان اور پاکستان تک ہمارے ہمسایہ اور علاقائی ممالک کے لئے بہت سخت مہینہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا عزم تمام مظلومین کی حمایت اور ظالموں کے مد مقابل استقامت پر استوار ہے۔