امام کا حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے مجمع سے خطاب (2)

اگر یونیورسٹی کا استاد منحرف ہو جائے یہ ایک آدمی منحرف نہیں ہوا ہے بلکہ ایک گروہ منحرف ہوا ہے

ID: 39845 | Date: 2015/06/08


ایک یونیورسٹی کا آدمی اگر منحرف ہو جائے وہ ایک دکاندار سے فرق کرتا ہے وہ ایک مستری مزدور سے فرق کرتا ہے۔ یہ لوگ اگر منحرف ہوں گے تو ان کا انحراف ذاتی ہوگا وہ کسی دوسرے کو منحرف نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر یونیورسٹی کا استاد منحرف ہو جائے یہ ایک آدمی منحرف نہیں ہوا ہے بلکہ ایک گروہ منحرف ہوا  ہے۔



حوزہ اور یونیورسٹی دونوں توحیدی سماج کو تشکیل دینے کی راہ میں


آپ کے [یونیورسٹی کے اساتید] اور ہمارے درمیان اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ہم دونوں سماج کی تربیت کرنے کے راستے میں قدم بڑھا رہے ہیں ہمیں انسانوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کو ضرورت ہے اس بات کی کہ اس ملک میں انسان وجود میں آئیں مومن پیدا ہوں۔ یہ آدمی جو آپ کے زیر تربیت یا ہمارے سایہ تربیت میں پروان چڑھتا ہے اگر وہ مومن ہے تو کبھی بھی  ظلم کے نیچے نہیں دب سکتا کبھی  بھی کوئی اس کو کسی چیز کی لالچ نہیں دے سکتا۔ کسی کی دھمکی اس پر اثر  نہیں کر سکتی۔ وہ لوگ جو ایمان نہیں رکھتے، ہر طرح کی لالچ میں پڑ جاتے ہیں ہر طرح کی دھمکیوں سے خوف کھا جاتے ہیں ۔ لیکن صاحبان ایمان پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔ اس لیے کہ ان چیزوں کو اپنی شرعی تکالیف کے خلاف سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ اور ہم ہاتھ میں ہاتھ دیں یک مشت ہو جائیں اور ایک توحیدی سماج وجود میں لائیں  اس معنی میں کہ اس میں سب خدا کے معتقد ہوں کاموں کی سزا جزا کے معتقد ہوں ہر اعتبار سے مومن اور متقی ہوں۔ اگر ہم اور آپ ہاتھ میں ہاتھ دیں اور جوانوں کو مومن اور با تقوی تربیت کریں ہماری مملکت آخر تک زندہ رہی گی۔ اور اگر چنانچہ ہم کوتاہی کریں اس سنگین ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر رکھتے ہوئے اپنے ملک کے جوانوں کے حق میں کوتاہی کریں فرض کریں آج تھوڑے بہت برے کام کریں کل اس سے بدتر، کریں گے وہ لوگ جو اعتقاد نہیں رکھتے ، ایمان نہیں رکھتے، ملک کے مصالح کی طرف توجہ نہیں رکھتے، صرف اپنی مصلحتوں کی خاطر کام کرتے ہیں ایسے افراد کا بدترین سر انجام ہوگا۔



علم اور ایمان کا کردار ملک کی سرنوشت میں


وہ سب لوگ جنہوں نے ایسی بساط بچھا رکھی ہے ایسی فضا ایران میں پھیلا رکھی ہے اور ہماری قوم کے لیے ان پریشانیوں کو کھڑا کر رکھا ہے یہ سب اس لیے ہے کہ ان کے اندر ایمان نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ اگر ایمان ہوتا ممکن نہیں تھا کہ ایک آدمی چند قرار دادوں کی بنا پر پورے ملک کو مشکل میں گرفتار کرتا۔ اگر یہ ایمان رکھتے ہوتے ایک مملکت کے سرمایہ کو برباد کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ صرف اس لیے کہ دوسرے ملک میں چند ایک قصر بنا لیں، چند ایک بنکوں کو بھر دیں ایمان نہیں تھا لہذا ایسے کام کئے۔


تمام خیرات اور ایک ملک کے لیے تمام ترقیوں کا منشاء ، مادی اور معنوی حوالے سے، ایمان کا ہونا ہے۔ ہمیں اور آپ کو چاہیے کہ یک مشت ہو کر نسل جوان کے اندر جو ملک کے آیندہ کا سرمایا ہیں ایمان ایجاد کریں۔ آپ یونیورسٹی سے مومن افراد کو باہر نکالیں ہم حوزہ سے مومن افراد کو سماج کے حوالہ کریں گے نہ صرف عالم، صرف عالم کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ البتہ صرف مومن ہونا بھی کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ دوسرے لوگ بھی مومن ہیں لیکن عالم جب مومن ہو گا عالم جب متقی ہو گا وہ خیرات اور برکات کا منشاء ہو گا۔ ایسا شخص ایک ملک کی حفاظت کر سکے گا، لہذا ایک ٹھوس ذمہ داری ہے ہمارے اور آپ کے کاندھوں پر۔ اور اس ذمہ داری کو کاندھوں پر اٹھا کر اگر صحیح راستہ چلیں گے اور جس پوسٹ پر ہیں جو مشغلہ رکھتے ہیں اسے ٹھیک انجام دیں گے علم کے ساتھ ساتھ ایمان کو بھی تقویت دیں گے پروگراموں میں تبدیلی لائیں گے وہ پروگرام جو عقب ماندگی کاسبب ہیں انہیں چینج کریں گے ہم بھی کوشش کرتے ہیں آپ بھی کوشش کریں وہ پروگرام جو دوسرے ہمارے لیے تیار کرتے ہیں ہم ان کی کیوں پیروی کریں ہمیں اپنے پروگرام تیار کرنا چاہیے۔ ان میں تبدیلی لانا چاہیے۔



ثقافت کا کردار قوم کی عزت یا ذلت میں


سب سے بڑی تبدیلی جو آنا چاہیے وہ ثقافت کے اندر تبدیلی ہے۔ اس لیے کہ ثقافت سب سے بڑا ذریعہ جو ملک کو یا سعادت کی طرف لے جاتا ہے یا شقاوت اور بدبختی کی طرف۔ ثقافتی پروگراموں میں تبدیلی لازم ہے۔ ثقافت کو بدلنا چاہیے ثقافت، ادارات سے ہٹ کر ہے۔ ثقافت کا تعلق سماج سے ہے لہذا کافی مشکلات کا باعث ہے۔ میں اس حوالے سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ حاضر ہیں ملک کے لیے طرح کی خدمت کریں یہ سب سے زیادہ ارزشمند ہے لیکن آپ کا بنیادی کام یہ ہو گا کہ ثقافت میں تبدیلی لائیں بظاہر یہ ایک مادی کام ہے لیکن در حقیقت ایک معنوی اور اخلاقی کام ہے جس کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ثقافت میں ایسی تبدیلی پیدا کریں تا کہ وہ قوم کے لیے مفید ثابت ہو۔ یہ ایمان کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر ایک دو آدمی ایسے ہوں جو ایمان نہیں رکھتے لیکن کام اچھے انجام دیتے ہیں وہ معیار نہیں ہیں معیار سماج ہے۔ ایسا نہیں ہے اگر ایک آدمی مل جائے آپ کہیں فلاں ایمان نہیں رکھتا لیکن آدمی اچھا ہے اچھے کام کرتا ہے۔ ہم اس بات کے منکر نہیں ہیں ۔ ایک دو آدمی کوئی معنی نہیں رکھتے ہماری مراد سماج ہے اگر ہم صرف علم کی خوراک دیتے رہیں اور آخر میں وہ علم کے حربہ سے لوگوں کی جانوں کی پیچھے پڑ جائے ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ یونیورسٹی میں ایسی تہذیب سکھائیں کہ وہ علم کو سماج کے منافع کے لیے استعمال کرے۔
بہر حال میں خدا وند عالم سے آپ سب کے لیے صحت و سلامتی کا طلبگار ہوں اور آپ کی سعادت اور ملک کی خدمت کرنے کے جذبہ کی دعا مانگتا ہوں کہ ہم سب کو ملک کے درد کو سمجھنے اور اس کا علاج کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔


 


جمادی الثانی 1399


صحيفه امام، ج‏7، ص: 467 ۔474



ایک یونیورسٹی کا آدمی اگر منحرف ہو جائے وہ ایک دکاندار سے فرق کرتا ہے وہ ایک مستری مزدور سے فرق کرتا ہے۔ یہ لوگ اگر منحرف ہوں گے تو ان کا انحراف ذاتی ہوگا وہ کسی دوسرے کو منحرف نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر یونیورسٹی کا استاد منحرف ہو جائے یہ ایک آدمی منحرف نہیں ہوا ہے بلکہ ایک گروہ منحرف ہوا  ہے۔



حوزہ اور یونیورسٹی دونوں توحیدی سماج کو تشکیل دینے کی راہ میں
آپ کے [یونیورسٹی کے اساتید] اور ہمارے درمیان اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ہم دونوں سماج کی تربیت کرنے کے راستے میں قدم بڑھا رہے ہیں ہمیں انسانوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک کو ضرورت ہے اس بات کی کہ اس ملک میں انسان وجود میں آئیں مومن پیدا ہوں۔ یہ آدمی جو آپ کے زیر تربیت یا ہمارے سایہ تربیت میں پروان چڑھتا ہے اگر وہ مومن ہے تو کبھی بھی  ظلم کے نیچے نہیں دب سکتا کبھی  بھی کوئی اس کو کسی چیز کی لالچ نہیں دے سکتا۔ کسی کی دھمکی اس پر اثر  نہیں کر سکتی۔ وہ لوگ جو ایمان نہیں رکھتے، ہر طرح کی لالچ میں پڑ جاتے ہیں ہر طرح کی دھمکیوں سے خوف کھا جاتے ہیں ۔ لیکن صاحبان ایمان پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔ اس لیے کہ ان چیزوں کو اپنی شرعی تکالیف کے خلاف سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ اور ہم ہاتھ میں ہاتھ دیں یک مشت ہو جائیں اور ایک توحیدی سماج وجود میں لائیں  اس معنی میں کہ اس میں سب خدا کے معتقد ہوں کاموں کی سزا جزا کے معتقد ہوں ہر اعتبار سے مومن اور متقی ہوں۔ اگر ہم اور آپ ہاتھ میں ہاتھ دیں اور جوانوں کو مومن اور با تقوی تربیت کریں ہماری مملکت آخر تک زندہ رہی گی۔ اور اگر چنانچہ ہم کوتاہی کریں اس سنگین ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر رکھتے ہوئے اپنے ملک کے جوانوں کے حق میں کوتاہی کریں فرض کریں آج تھوڑے بہت برے کام کریں کل اس سے بدتر، کریں گے وہ لوگ جو اعتقاد نہیں رکھتے ، ایمان نہیں رکھتے، ملک کے مصالح کی طرف توجہ نہیں رکھتے، صرف اپنی مصلحتوں کی خاطر کام کرتے ہیں ایسے افراد کا بدترین سر انجام ہوگا۔



علم اور ایمان کا کردار ملک کی سرنوشت میں
وہ سب لوگ جنہوں نے ایسی بساط بچھا رکھی ہے ایسی فضا ایران میں پھیلا رکھی ہے اور ہماری قوم کے لیے ان پریشانیوں کو کھڑا کر رکھا ہے یہ سب اس لیے ہے کہ ان کے اندر ایمان نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ اگر ایمان ہوتا ممکن نہیں تھا کہ ایک آدمی چند قرار دادوں کی بنا پر پورے ملک کو مشکل میں گرفتار کرتا۔ اگر یہ ایمان رکھتے ہوتے ایک مملکت کے سرمایہ کو برباد کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ صرف اس لیے کہ دوسرے ملک میں چند ایک قصر بنا لیں، چند ایک بنکوں کو بھر دیں ایمان نہیں تھا لہذا ایسے کام کئے۔
تمام خیرات اور ایک ملک کے لیے تمام ترقیوں کا منشاء ، مادی اور معنوی حوالے سے، ایمان کا ہونا ہے۔ ہمیں اور آپ کو چاہیے کہ یک مشت ہو کر نسل جوان کے اندر جو ملک کے آیندہ کا سرمایا ہیں ایمان ایجاد کریں۔ آپ یونیورسٹی سے مومن افراد کو باہر نکالیں ہم حوزہ سے مومن افراد کو سماج کے حوالہ کریں گے نہ صرف عالم، صرف عالم کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ البتہ صرف مومن ہونا بھی کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ دوسرے لوگ بھی مومن ہیں لیکن عالم جب مومن ہو گا عالم جب متقی ہو گا وہ خیرات اور برکات کا منشاء ہو گا۔ ایسا شخص ایک ملک کی حفاظت کر سکے گا، لہذا ایک ٹھوس ذمہ داری ہے ہمارے اور آپ کے کاندھوں پر۔ اور اس ذمہ داری کو کاندھوں پر اٹھا کر اگر صحیح راستہ چلیں گے اور جس پوسٹ پر ہیں جو مشغلہ رکھتے ہیں اسے ٹھیک انجام دیں گے علم کے ساتھ ساتھ ایمان کو بھی تقویت دیں گے پروگراموں میں تبدیلی لائیں گے وہ پروگرام جو عقب ماندگی کاسبب ہیں انہیں چینج کریں گے ہم بھی کوشش کرتے ہیں آپ بھی کوشش کریں وہ پروگرام جو دوسرے ہمارے لیے تیار کرتے ہیں ہم ان کی کیوں پیروی کریں ہمیں اپنے پروگرام تیار کرنا چاہیے۔ ان میں تبدیلی لانا چاہیے۔



ثقافت کا کردار قوم کی عزت یا ذلت میں
سب سے بڑی تبدیلی جو آنا چاہیے وہ ثقافت کے اندر تبدیلی ہے۔ اس لیے کہ ثقافت سب سے بڑا ذریعہ جو ملک کو یا سعادت کی طرف لے جاتا ہے یا شقاوت اور بدبختی کی طرف۔ ثقافتی پروگراموں میں تبدیلی لازم ہے۔ ثقافت کو بدلنا چاہیے ثقافت، ادارات سے ہٹ کر ہے۔ ثقافت کا تعلق سماج سے ہے لہذا کافی مشکلات کا باعث ہے۔ میں اس حوالے سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ حاضر ہیں ملک کے لیے طرح کی خدمت کریں یہ سب سے زیادہ ارزشمند ہے لیکن آپ کا بنیادی کام یہ ہو گا کہ ثقافت میں تبدیلی لائیں بظاہر یہ ایک مادی کام ہے لیکن در حقیقت ایک معنوی اور اخلاقی کام ہے جس کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ثقافت میں ایسی تبدیلی پیدا کریں تا کہ وہ قوم کے لیے مفید ثابت ہو۔ یہ ایمان کے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر ایک دو آدمی ایسے ہوں جو ایمان نہیں رکھتے لیکن کام اچھے انجام دیتے ہیں وہ معیار نہیں ہیں معیار سماج ہے۔ ایسا نہیں ہے اگر ایک آدمی مل جائے آپ کہیں فلاں ایمان نہیں رکھتا لیکن آدمی اچھا ہے اچھے کام کرتا ہے۔ ہم اس بات کے منکر نہیں ہیں ۔ ایک دو آدمی کوئی معنی نہیں رکھتے ہماری مراد سماج ہے اگر ہم صرف علم کی خوراک دیتے رہیں اور آخر میں وہ علم کے حربہ سے لوگوں کی جانوں کی پیچھے پڑ جائے ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ یونیورسٹی میں ایسی تہذیب سکھائیں کہ وہ علم کو سماج کے منافع کے لیے استعمال کرے۔
بہر حال میں خدا وند عالم سے آپ سب کے لیے صحت و سلامتی کا طلبگار ہوں اور آپ کی سعادت اور ملک کی خدمت کرنے کے جذبہ کی دعا مانگتا ہوں کہ ہم سب کو ملک کے درد کو سمجھنے اور اس کا علاج کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔


 


27 جمادی الثانی 1399
صحيفه امام، ج‏7، ص: 467 ۔474