جشن ولادت امام زمان (عج)

مہدی علیہ السّلام کے لفظ «ہدایت ہائے ہوئے» کے ہیں

ID: 39779 | Date: 2015/06/02

وہ وقت جس کا مصومین علیہ السّلام کو انتظار تھا اخر کو اہی گیا اور پندرہ شعبان 255 ھ کی رات کو سامرے میں  اس مبارک ومقدس بچے کی ولادت ہوئی۔ امام حسن علیہ السّلام عسکری علیہ السّلام نے اس موقع پر کافی مقدار میں  روٹیاں  اور گوشت راہ خدا میں  صدقہ کرایا اور عقیقہ میں کئی بکروں  کی قربانی فرمائی۔


نشو نما و تربیت


ائمہ اہل بیت میں  یہ کوئی نئی بات نہیں  کہ ان کو ظاہری حیثیت سے تعلیم وتربیت کاموقع حاصل نہ ہوسکا ہو اور وہ بچپن ہی میں  قدرت کی طرف کے انتظام ُ خاص کے ساتھ کمالات کے جوہر سے اراستہ کرکے امامت کے درجہ پر فائز کر دیئے گئے ہوں  اس کی نظریں  حضرت «امامِ منتظر» کے پہلے بھی کئی سامنے اچکی تھیں  جیسے اپ کے جد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلامجن کی عمر اپنے والد امام محمد تقی علیہ السّلام جن کی عمر اپنے والد امام رضا کے انتقال کے وقت اٹھ برس سے زیادہ نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ مدت عام افراد کے لحاظ سے بظاہر اسباب ُ نشوونما اور تعلیم وتربیت کے لیے ناکافی ہے مگر جب خالق کی مخصوص عطا کو ان حضرات کے بارے میں  تسلیم کرلیا تو اب سات اور چھ اور پانچ برس کے فرق کا بھی کوئی سوال باقی نہیں رہ سکتا۔ اگر سات برس کے سن میں  امامت کامنصب حاصل ہوسکتا ہے اور چھ برس کے سن میں  حاصل ہوسکتا ہے جس کی نظیریں  قبل کے اماموں  کے یہاں  دنیا کی انکھوں کے سامنے اچکی تو پانچ یاچار برس میں  بھی یہ منصب اسی طرح حاصل ہوسکتا ہے اور اس میں  کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں  ہے۔


بارھویں  امام کو اپنے والد کی اغوش ُ شفقت وتربیت سے بہت کم عمر میں  جدا ہونا پڑا یعنی پندرہ شعبان 255 ھ میں  اپ کی ولادت ہوئی اور ربیع الاوّل 260 ھ میں  اپ کے والد بزرگوار حضرت حسن عسکری علیہ السّلام کی وفات ہوگئی۔ اس کے معنٰی یہ ہیں  کہ اپ کی عمر اس وقت صرف ساڑھے چاربرس کی تھی اور اسی کمسنی میں  اپ کے سرپر خالق کی طرف سے امامت کا تاج رکھ دیا گیا۔


حکومت ُ وقت کاتجسسّ


بالکل اسی طرح جیسے فرعون مصر نے یہ پشین گوئی سن لی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والابچہ میرے ملک کی تباہی کا باعث ہوگا تو اس نے اس کی کوشش صرف کردیں  کہ کسی طرح وہ بچہ پیدا ہی نہ ہونے پائے اور پیدا ہو تو زندہ نہ رہنے پائے اسی طرح متواتر احادیث کی بنا پر عباسی سلطنت کے فرمانروا کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ حسن عسکری علیہ السّلام کے یہاں  اس مولود کی پیدائش ہوگی جس کے ذریعے باطل حکومتیں  تباہ ہوجائیں  گی تو اس کی طرف سے انتہائی شدت کے ساتھ انتظاما ت کیے گئے کہ ا یک ایسے مولود کی پیدائش کا مکان باقی نہ رہے اسی لیے امام حسن عسکری علیہ السّلام کو مسلسل قیدوبند میں  رکھا گیا مگر قدرت الٰہی کے سامنے کوئی بڑی سے بڑی مادی قوت بھی کامیاب نہیں  ہوسکتی۔


جس طرح فرعون کی تمام کوششوں  کے باوجود موسیٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے اسی طرح سلطنت عباسیہ کے تمام انتظامات کے باوجود «امام منتظر علیہ السّلام» کی ولادت ہوئی مگر یہ قدرت کی طرف کا انتظام تھا کہ اپ کی پیدائش کو صیغئہ راز میں  رکھا گیا اور جسے قدرت اپنا راز بنائے اس کے افشائ پر کون قادر ہوسکتا ہے؟ بیشک ذرا دیر کے لیے خوداس کی مصلحت اس کی متقاضی ہوئی کہ راز پر سے پردہ ہٹایا جائے۔ جب امام حسن عسکری علیہ السّلام کاجنازہ غسل وکفن کے بعد نماز ُ جنازہ کے لیے رکھا ہوا تھا۔ شيعیانِ خاص کامجمع تھا اور نماز کے لیے صفیں  بندھ چکی تھیں ، امام حسن عسکری علیہ السّلام کے بھائی جعفر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے اگے بڑھ چکے تھے اور تکبیر کہنا چاہتے تھے کہ ایک دفعہ حرم سرائے امامت سے ایک کم سن بچہ برامد ہو اور بڑھتا ہواصفوں  کے اگے پہنچا اور جعفر کی عبا کو ہاتھ میں  لے کر کہا چچا ! پیچھے ہٹئیے۔ اپنے باپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا حق مجھے زیادہ ہے۔ جعفر بے ساختہ پیچھے ہٹے اور صاحبزادے نے اگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر صاحبزادہ حرم سرا میں  واپس گیا۔ غیر ممکن تھا کہ یہ خبر خلیفہ کو نہ پہنچی اور اب زیادہ شدت وقوت کے ساتھ تلاش شروع ہوگئی کہ ان صاحبزادہ کو گرفتار کرے کے قید کردیا جائے اور ان کی زندگی کاخاتمہ کیا جائے۔


غیبت


حضرت امام منتظر علیہ السّلامکی امامت کازمانہ اب تک دو غیبتوں  میں  تقسیم رہا۔ ایک زمانہ «غیبت صغریٰ» اور ایک غیبتِ کبریٰ « اس کی بھی خبر معصومین علیہ السّلام کی زبان پر پہلے اچکی تھی جیسے پیغمبر خدا کاارشاد اس کے لیے ایک غیبت ہوگی جس میں  بہت سی جماعتیں  گمراہ پھرتی رہیں  گی اور اس کی غیبت کے زمانہ میں  اس کے اعتقاد پر برقرار رہنے والے گوگرد سرخ سے زیادہ نایاب ہوں  گے۔ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کا ارشاد ہے. قائم ال محمد کے لیے ایک طولانی غیبت ہوگی، میری انکھوں  کے سامنے پھر رہا ہے وہ منظر کہ دوستانِ اہلبیت علیہ السّلام ا س کی غیبت کے زمانے میں  سرگرداں  پھر رہے ہیں  جس طرح جانور چارہ گاہ کی تلاش میں  سرگرداں  پھرتے ہیں ۔


دوسری حدیث میں  اس کا ظہور ایک اسی غیبت اور حیرانی کے بعد ہوگا جس میں  اپنے دین پرصرف بااخلاص اصحاب یقین ہی قائم رہ سکیں  گے۔ امام حسن علیہ السّلام کا قول الله اس کی عمر کو اس کی غیبت کی حالت میں  طولانی کرے گا، امام حسین علیہ السّلام کاارشاد اس کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ بہت سے گمراہ ہوجائیں گے امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا۔ مہدی ساتویں  امام کی اولاد میں  سے پانچواں  ہوگا۔ ا س کی ہستی تمھاری نظروں  سے غائب رہے گی۔ دوسری حدیث میں  صاحب الامر کے لیے ایک غیبت ہونے والی ہے۔ اس وقت ہر شخص کو لازم ہے کہ تقویٰ اختیار کرے اور اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام فرماتے ہیں  »ا س کی صورت لوگوں  کی نگاہوں  سے غائب ہوگی مگر اس کی یاد اہل ایمان کے دلوں  سے غائب نہ ہوگی، وہ ہمارے سلسلے کا بارہواں  ہوگا۔ امام رضا علیہ السّلام ا س کی غیبت کے زمانہ میں  اس کا انتظار رہے گا۔ امام محمد تقی مہدی وہ ہے جس کی غیبت کے زمانہ میں  اس کاانتظار اور ظہور کے وقت اس کی اطاعت لازم ہو گی امام علی نقی صاحب الامروہ ہوگا جس کے متعلق بہت سے لوگ کہتے ہوں  گے، وہ ابھی پیدا ہی نہیں  ہوا۔ «امام حسن عسکری علیہ السّلام۔» میرے فرزند کی غیبت ایسی ہوگی کہ سوائے ان لوگوں  ے جنھیں  الله محفوظ رکھے سب شک وشبہ میں  مبتلا ہوجائیں  گے۔ اسی کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السّلام نے بھی یہ بتا دیا تھا کہ قائم الِ محمد کے لیے وہ غیبتیں  ہیں ۔ ایک بہت طولانی اور ایک اس کی بہ نسبت مختصر۔ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ ایک دوسرے کی بہ نسبت طولانی ہوگی۔ ان ہی احادیث کے پہلے سے موجود ہونے کا نتیجہ تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السّلام کے بعد ان کے اصحاب اور مومنین مخلصین کسی شک وشبہ میں  مبتلا نہیں  ہوئے اور انھوں  نے کسی حاضر الوقت مدعی امامت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس »امام غائب علیہ السّلام کے تصور کے سامنے سرتصدیق خم کردئے۔