اگر تعلیمات انبیاء عملی جامہ پہن لیں، دنیا میں جنگ کا نام و نشان نہ رہے گا

ہمیشہ ہمیں خداوند عالم کا شکر گزار رہنا چاہئے کہ ہم اس ملک میں ایک دوسرے کے ساته بغیر کسی مذہبی تعصب کے، ایک دوسرے کے ساته، آرام اور چین وسکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ID: 38404 | Date: 2015/01/06

جماران کے مطابق، مشرقی ایران کے آشوری چرچ سے تعلق رکهنے والے اسقف اعظم جناب مارنرسای بنیامین کا کہنا ہے: اسلام اور مسیحیت دونوں ایک دوسرے سے بیحد نزدیک اور صلح و امن کے پیغام رساں مذاہب ہیں، لیکن آج انسانوں کی خودخواہی نے تمام عالم بشریت بالخصوص میڈل ایسٹ کو جنگ و جدال کے معرکہ میں تبدیل کر رکها ہے۔


محترم اسقف نے اضافہ کیا: حضرت مسیح(ع) انسان اور خداوند عالم کو آپس میں جوڑنے والی ذات کا نام ہے، جناب عیسی مسیح کی آمد سے خدا اور بندگان خدا کے درمیان ناپید ہونے والا رابطہ دوبارہ بحال ہوا و اسی طرح خود انسانوں کے درمیان با ہمی ربط بهی مستحکم ہوا۔


جناب بنیامین نے اپنی گفتگو آگے بڑهاتے ہوئے کہا: آج کا المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی خداوند عالم کے بجائے خود کو خدا سمجه بیٹها ہے!! جسے دیکهو وہی اس روئے زمین پر خود کو خدا سمجه بیٹها ہے۔ آج انسانوں کی اس خودخواہی کے نتیجہ میں پوری دنیا بالخصوص میڈل ایسٹ اس مشکل میں مبتلا ہو چکی ہے۔


موصوف نے کہا: آج کا انسان اگر اپنے دین و مذہب اور خدا و نبی کی تعلیمات کے مطابق عمل پیرا ہو، دنیا میں کسی بهی جگہ نہ جنگ ہوگی نہ قتل وغارتگری۔ شیطان کی دنیا کے گوشہ گوشہ میں یہ کوشش رہتی ہے کہ انسان کو خداوند عالم اور روحانی راستہ سے منحرف کرے؛ افسوس کا مقام ہے کہ شیطان کے دام میں گرفتار آج کی انسانیت آپسی اور باہمی قتل و غارتگری کا شکار ہے۔ اب اس انسان کا تعلق کسی بهی دین ومذہب سے ہو اس کا کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔


۲۰۰۳ عیسوی سے جب امریکہ نے عراق اور میڈل ایسٹ میں صلح اور ڈیموکریسی کی گفتگو چهیڑی، جنگ و جدل کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں بغداد اور دیگر شہروں کے متعدد چرچ نذر آتش ہوئے جس کے نتیجہ میں چند ایک مسیحی علماء کو شہادت کا جام نوش کرنا پڑا۔


عراق اور شام کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے آپ نے اپنے ہم مشرب و ہم مکتب، بہت سے افراد کے متاثر ہونے کا تذکر کرتے ہوئے اضافہ کیا: مجهے اس بات پر صد افتخار ہے کہ میں ایرانی ہوں بلکہ یہ میرے لئے بہت افتخار کی بات ہے کہ اس ملک میں، میں اور دیگر مسیحی حضرات نے اس ملک کی سالمیت اور امن و امان کے سبب اپنے دین و مذہب کو محفوظ رکها ہے۔ میں نے اپنی اسی تقریر میں اور دیگر تقاریر میں بارہا یہ دعا کی ہے کہ ہمیشہ ہمیں خداوند عالم کا شکر گزار رہنا چاہئے کہ ہم اس ملک میں ایک دوسرے کے ساته بغیر کسی مذہبی تعصب کے ایک دوسرے کے ساته آرام اور چین وسکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔


جب جناب پوپ فرانسیس، عالمی کیتهولیک کے قائد کی حیثیت سے یہ بیان دیتے ہیں کہ اسلام، ظلم و بربریت کا مخالف ہے اور جب شیعہ مرجع تقلید اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ اسلام اور مسیحیت، صلح کے علمبردار دو مذاہب ہیں، تو جو آج اسلام کے نام پر خونریزی کر رہے ہیں، ان کا مقصد ہے کہ اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کریں اور ایک نیا اسلام دنیا والوں کے سامنے پیش کریں۔ اگر سچا اسلام وہی ہے جس کا داعش جیسا گروہ مدعی ہے، تو آج مجهے اور دیگر مسیحیوں کو اس ایران میں زندہ رہنے کا قطعی حق نہیں تها۔


مجهے امید کہ ہمیشہ خداوند عالم کا دست قدرت ہمیشہ ہم ضعیفوں اور ناتوانوں پر سایہ فگن رہےگا تا کہ ہم اپنے پیروکاروں کو راہ مستقیم کی ہدایت کر سکیں اور دنیا کے کسی بهی گوشے میں ہمیں جنگ و جدال اور قتل و غارتگری نظر نہ آئے۔


انسان کی خلقت کا مقصد ہے عبادت پروردگار، امنیت، صلح، ترقی، مثبت نقطہ نظر اور ہر اس زاویہ دید کے لئے خلق ہوا جو اس کی ترقی کا سبب قرار پائے نہ کہ جنگ و جدال اور قتل و غارتگری کے لئے! یہ ناپاک اعمال ہرگز انسانی صفت نہیں بلکہ شیطانی طبیعت کا حصہ ہے۔