دنیا بهر کے مسلمان علماء دین تکفیریت کے خاتمے کیلئے علمی تحریک کا آغاز کریں: رہبر معظم انقلاب

اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام اور حکومت مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صہیونی رژیم کی دشمنی پر متفق ہیں اور وہ امام خمینی(رہ) کے راستے پر گامزن ہیں اور اس سے ذرہ برابر منحرف نہیں ہوئے۔

ID: 37998 | Date: 2014/11/27

اسلام ٹائمز کے مطابق، ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے 25 نومبر کو قم میں منعقدہ دو روزہ انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف عالمی کانفرنس کے منتظمین اور شرکاء سے ملاقات کی اور ان سے خطاب کیا۔ انہوں نے اس عالمی کانفرنس کے منتظمین خاص طور پر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور آیت اللہ جعفر سبحانی کا شکریہ ادا کیا اور ان کی زحمات کو سراہتے ہوئے کہا: اس خطرناک گروہ کا جائزہ لیتے وقت اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ اصل مسئلہ تکفیری سوچ کی ترویج کا بهرپور مقابلہ کرنا ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو صرف داعش نامی گروہ تک محدود نہیں بلکہ داعش اس شجرہ خبیثہ کی صرف ایک شاخ ہے۔


آپ نے فرمایا: تکفیری عناصر کی پیدائش کا مقصد امریکہ، اسرائیل اور استعماری قوتوں کی سیاسی اہداف کی تکمیل خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور قدس شریف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانا ہے۔ ان کا ظاہر اسلامی ہے جبکہ حقیقت میں وہ استعماری قوتوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ ثابت کرنے کیلئے دلیل یہ ہے کہ اب تک تکفیری گروہوں اور ان کی حامی حکومتوں نے ایک بار بهی اسرائیل کی مذمت نہیں کی۔ وہ نہ صرف اسرائیل کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ الٹا خود اسلامی ممالک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاته سے نہیں جانے دیتے۔
آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے کہا: تکفیری گروہوں کی جانب سے انجام پانے والا ایک اور منحوس اقدام یہ ہے کہ دین مبین اسلام کا رحمت، عقلمندی اور منطق پر استوار خوبصورت چہرہ، خراب کرنے کی کوشش ہے۔ وہ اسلام کے نام پر بے گناہ انسانوں کے گلے کاٹنے اور ایک مسلمان فوجی کی لاش سے دل نکال کر چبانے جیسے غیر انسانی اقدامات کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شائع کرتے ہیں، تاکہ اس طرح دنیا والوں کو اسلام سے بدبین کریں۔
انہوں نے حال ہی میں عراق میں امریکہ کی جانب سے داعش کو ہوائی جہاز کے ذریعے اسلحہ اور ادویات فراہم کئے جانے کو اپنے دعوے کا ایک اور ثبوت قرار دیا اور کہا: امریکی حکام داعش کے خلاف جنگ کا ڈهونگ رچا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ داعش کا مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سراسر جهوٹ ہے کیونکہ امریکہ کی سربراہی میں بننے والے داعش مخالف اتحاد کا اصلی مقصد مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی اور قتل و غارت کا بازار گرم رکهنا ہے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے منحوس مقاصد کو کبهی بهی حاصل نہ کر پائیں گے۔
ولی امر مسلمین آیت اللہ خامنہ ای نے موجودہ صورتحال کے پیش نظر تکفیریت کے مقابلے میں مسلمان علماء دین کی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ علماء دین کی ایک اہم ذمہ داری عالمی سطح پر ایک ایسی علمی اور منطقی تحریک کا آغاز کرنا ہے جس کی مدد سے تکفیری سوچ کو جڑ سے اکهاڑ کر پهینکا جاسکے۔


انہوں نے کہا کہ تکفیری عناصر خود کو غلط طور پر سلف صالح کے طور پر پیش کرتے ہیں، لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ دین، علم اور منطق کی زبان کے ذریعے حقیقی سلف صالح کی جانب سے تکفیریت سے بیزاری کا اظہار کیا جائے۔ معصوم مسلمان جوانوں کو نجات دلائی جائے۔ یہ ذمہ داری دینی علماء پر عائد ہوتی ہے۔


 انہوں نے کہا: علماء دین کا تیسرا اہم وظیفہ مسئلہ فلسطین اور قدس شریف کو اجاگر کرنا اور اس سے غفلت برتے جانے کو روکنا ہے کیونکہ یہ عالم اسلام کا اصلی ترین ایشو ہے۔
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام اور حکومت مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صہیونی رژیم کی دشمنی پر متفق ہیں اور وہ امام خمینی(رہ) کے راستے پر گامزن ہیں اور اس سے ذرہ برابر منحرف نہیں ہوئے۔ آپ نے مزید کہا: خداوند متعال کے لطف و کرم سے اسلامی جمہوریہ ایران مذہبی اختلافات اور محدودیتوں کا شکار نہیں ہوا۔ ہم نے جیسے حزب اللہ لبنان جو ایک شیعہ گروہ ہے، کی مدد کی ویسے ہی حماس اور اسلامک جہاد اور دوسرے فلسطینی مجاہد گروہ جو سنی ہیں، کی بهی مدد کی ہے اور اپنی اس مدد کو جاری رکهیں گے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خطے خاص طور پر عراق، شام اور لبنان میں اسلام دشمن قوتوں کی ناکامیوں اور مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: دشمن کی کمزوری کا ایک اور ثبوت ایران کے جوہری پروگرام کا مسئلہ ہے۔ امریکہ اور یورپی استعماری ممالک نے ایک ہو کر جوہری تنازعات میں اسلامی جمہوری ایران کو گهٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے ہیں اور مستقبل میں بهی ناکامی ہی ان کا نصیب بنے گی۔


یاد رہے ایران کے شہر قم المقدسہ میں منعقد ہونے والی دو روزہ انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف عالمی کانفرنس میں شام، پاکستان، لبنان، عراق اور 84 دوسرے ممالک سے تقریباً 315 علماء دین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں 700 مقالات بهی بهیجے گئے، جن میں سے 144 مقالات پر مشتمل کتاب بهی شائع کی گئی ہے۔